Source text in English | Translation by Hatim Ali (#26876) — Winner |
Boom times are back in Silicon Valley. Office parks along Highway 101 are once again adorned with the insignia of hopeful start-ups. Rents are soaring, as is the demand for fancy vacation homes in resort towns like Lake Tahoe, a sign of fortunes being amassed. The Bay Area was the birthplace of the semiconductor industry and the computer and internet companies that have grown up in its wake. Its wizards provided many of the marvels that make the world feel futuristic, from touch-screen phones to the instantaneous searching of great libraries to the power to pilot a drone thousands of miles away. The revival in its business activity since 2010 suggests progress is motoring on. So it may come as a surprise that some in Silicon Valley think the place is stagnant, and that the rate of innovation has been slackening for decades. Peter Thiel, a founder of PayPal, and the first outside investor in Facebook, says that innovation in America is “somewhere between dire straits and dead”. Engineers in all sorts of areas share similar feelings of disappointment. And a small but growing group of economists reckon the economic impact of the innovations of today may pale in comparison with those of the past. [ … ] Across the board, innovations fueled by cheap processing power are taking off. Computers are beginning to understand natural language. People are controlling video games through body movement alone—a technology that may soon find application in much of the business world. Three-dimensional printing is capable of churning out an increasingly complex array of objects, and may soon move on to human tissues and other organic material. An innovation pessimist could dismiss this as “jam tomorrow”. But the idea that technology-led growth must either continue unabated or steadily decline, rather than ebbing and flowing, is at odds with history. Chad Syverson of the University of Chicago points out that productivity growth during the age of electrification was lumpy. Growth was slow during a period of important electrical innovations in the late 19th and early 20th centuries; then it surged. | سلیکون ویلی میں خوشحالی کا دور واپس آ چُکا ہے۔ ہائی وے 101 کے ساتھ موجود دفتری پارک ایک مرتبہ پھر سے پر امید نئے کاروباروں کے طغروں سے سجے ہوئے ہیں۔ کرایوں کے نرخ بڑھنے کے ساتھ ساتھ لیک تہوئے جیسے سیاحتی قصبوں میں واقع خوبصورت تعطیلاتی گھروں کی طلب بھی بڑھ رہی ہے، جو دولت کے انبار لگتے جانے کی ایک علامت ہے۔ بے ایریا سیمی کنڈکٹر کی صنعت اور اُن کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کمپنیوں کی جائے پیدائش تھی جو اس کے بعد پھل پھول چُکی ہیں۔ یہاں کے ساحروں نے ٹچ سکرین فونز سے لے کر عظیم الشان لائبریریوں کی لمحوں میں تلاش سے لے کر ہزاروں میل دور ایک ڈرون کو اُڑا پانے کی طاقت سمیت دُنیا کو کئی عجائبات مہیا کیے ہیں جو دُنیا کو اپنے وقت سے آگے بڑھا ہوا ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ سنہ 2010 سے یہاں کی کاروباری سرگرمیوں کا احیا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ترقی کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ لہذا یہ بات باعثِ حیرت ہو سکتی ہے کہ سلیکون ویلی میں کچھ لوگ اس جگہ کو جمود کا شکار سمجھتے ہیں، اور یہ کہ یہاں اختراع کی شرح کئی دہائیوں سے سست پڑ رہی ہے۔ پے پال کے بانی اور فیس بُک کے پہلے بیرونی سرمایہ کار، پیٹر تھیئل کیتے ہیں کہ امریکہ میں اختراع "شدید بحرانی اور مردہ ہر دو کیفیات کے کہیں درمیان" کھڑی ہے۔ ہر طرح کے شعبوں میں انجینئرز اسی قِسم کے مایوس کُن احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔ اور معاشیاتی ماہرین کے ایک چھوٹے لیکن بڑھوتری کی طرف گامزن گروہ کے مطابق ماضی کی اختراعات کے تقابل میں آج کل کی اختراعات کا معاشی اثر پھیکا ہو سکتا ہے۔ [ … ] عمل کاری کی کم قیمت طاقت کے ذریعے چلنے والی اختراعات کو ہر جگہ فروغ مِل رہا ہے۔ کمپیوٹرز قدرتی زبان کو سمجھنا شروع کر رہے ہیں۔ لوگ ویڈیو گیمز کو صرف جسم کی حرکت کے ذریعے کنٹرول کر رہے ہیں—یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جسے جلد ہی کاروباری دنیا کے زیادہ شعبوں میں استعمال کیا جا سکے گا۔ سہ جہتی پرنٹنگ اشیاء کی بڑھتی ہوئی پیچیدہ ترتیب بنانے کی اہل ہے, اور ہو سکتا ہے کہ یہ جلد ہی انسانی خلیات اور دیگر نامیاتی مواد کی جانب پیش قدمی کر جائے۔ ایک ابداعی مایوس اسے "بہلاوا" قرار دے کر مسترد کر سکتا ہے۔ لیکن یہ خیال کہ ٹیکنالوجی کی سربراہی میں ترقی کو بجائے اتار چڑھاؤ کے، یا تو بلا تخفیف جاری رہنا ہو گا یا تواتر سے زوال پذیر ہونا ہو گا، تاریخ سے متصادم ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے چیڈ سیورسن توجہ دلاتے ہیں کہ برق کاری کے دور میں پیداواری نمو بے ڈھب تھی۔ نمو انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں اہم برقی اختراعات کے دور میں سست روی کا شکار تھی؛ پھر اس میں ایکا ایکی اضافہ ہوا۔ |